Wednesday, June 24, 2009

نظریہ مطابقت اور پاکستانی سیاست

نظریہ مطابقت اور پاکستانی سیاست
ڈاکٹر منیب احمد ساحل


آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کے بعد نیل بوہر کے نظریہ مطابقت نے عالمگیر شہرت اختیار کی تھی ،نیل بوہر نے نظریہ مطابقت کے مطابق پرانے نظریات کو نئے نظریات پوری طرح رد نہیں کرتے بلکہ اتفاقات کی حیثیت سے ان میں شامل ہو جاتے ہیں نظریہ مطابقت کے مطابق ہی آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت نے گلیلو اور نیوٹن کے نظریات کو مکمل رد نہیں کرتا بلکہ اس کے بنیادی بادلیل دعووں اور کلیوں کو اپنے اندر شامل کر لیتا ہے ۔
آج اگر ہم پاکستانی سیاسی حالات کا سرسری جائزہ بھی لیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یحےی خان سے لے کر آصف زرداری تک تمام حکمرانوں کی پالیسیاں نہ صرف ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں بلکہ عوام کا استحصال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں ،ان حکمرانوں و سیاستدانوں میں ہوس اقتدار اور پیسہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جس کے سبب قوم نان شبینہ سے محتاج ہوتی جارہی ہے ،آج کل کا سب سے بڑا ایشو مالاکنڈ آپریشن ’’راہ حق‘‘ ہے مالاکنڈ ڈویژن میں مسلح افواج اور طالبان ایک دوسرے کیخلاف برسر پیکار ہیں، اور پاک فوج کا دعوی ہے کہ وہ جلد ہی یہ جنگ جیت لے گی ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاک فوج کی کاورائی دہشتگردی کیخلاف جنگ کا ایک حصہ ہے اور بقول پاکستانی حکمرانوں کے دہشتگردی کیخلاف جنگ پاکستان کی اپنی ہے مگر پاکستانی حکمران یہ جنگ امریکی امداد کے بل بوتے پر لڑ رہے ہیں یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے یا امریکا کی کوئی ذیلی ریاست؟ کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ اگر پاکستان کی اپنی ہے تو پاکستان یہ جنگ اپنے بل بوتے پر کیوں نہیں لڑ رہا؟ کیا آج اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو بھی کیا پاکستان امریکی امداد و اجازت لے کر بھارت سے مقابلہ کرے گا؟ اگر نہیں تو پھر پاکستان کو اس جنگ میں امریکی امداد کی ضرورت کیوں ہے؟
آج دہشتگردی کے خلاف جنگ کے باعث مالاکنڈ ڈویژن کے کم و بیش 35 لاکھ مسلمان خاک نشین بے گھر ہو چکے ہیں اور یہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کا ثمر ہے ،حکمرانوں نے تواس جنگ کو دنیا بھر میں کیش کرا لیا ہے مگر مالا کنڈ ڈویژن کے عوام کو صرف محرومی، ذلیتیں ،سسکیاں اور تباہی و بربادی ہی ملی ہے ،آج مالاکنڈ ڈویژن کے متاثرین کو کوئی صوبہ کھلے دل سے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ ایک مسلمان قوم کا تو تصور بھی ناپید ہو گیا ہے آج لسانیت و صوبائیت کی وجہ سے ان بے گھر مسلمانوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کا واحد مقصد یہود و ہنود کو خوش کرنا ہے کیونکہ تمام مسلمان کلمے کے رشتے کی بنا کر نا صرف ایک قوم ہیں بلکہ بھائی بھائی ہیں ۔امت مسلمہ جسے جسد واحد سے تشبیہ دی گئی تھی آج لسانیت ،صوبائیت کی بنیاد پر ہونیوالی قوم پرستی کے تاریک غار میں گم ہو کر اتنی بے حس ہو گئی ہے کہ مسلمان کہلانے والوں نے ان لوگوں کیخلاف احتجاجی مظاہرے کئے اور ہڑتالیں کیں جو اپنا سب کچھ لٹا چکے ہیں ۔
اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ملک کو داؤ پر لگانے کی ایک کامیاب کوشش یاران سیاست 1971ء میں کر چکے ہیں اور ایک بار پھر لسانی و صو بائی قومی پرستی کی منافرت پھیلا کر ملک کو ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ کی جانب لے جا رہے ہیں ،یہ وابستگان وائٹ ہاؤس اپنے آقاؤں کی جانب سے ملنے والے ہر حکم کو مکمل تعبیداری سے بجا لاتے ہیں اور وائٹ ہاؤس کی ڈالر حلالی کرنے کے چکر میں میر جعفری کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے کیونکہ پاکستان تو سیاستدانوں کا ہے ہی نہیں ،اس لئے انہیں پاکستان سے کیا لینا دینا ،پاکستان تو عوام کا ہے ،آج اگر پاکستان میں نظام تعلیم خراب ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ عوام کے بچے ہی صرف پاکستان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ،ان سیاستدانوں کے پاس نہ صرف بیرون ملک ذاتی رہائش گاہیںہیں بلکہ ان کا تمام بینک بیلنس بھی بیرون ملکمیں ہے پاکستان میں اگر کچھ ان کا ہے تو صرف عوام سے کئے گئے وعدے جو کہ کبھی پورے نہیں ہونگے۔
ان سیاستدانوں کو نہ تو پاکستان سے کچھ لینا ہے اور نہ ہی پاکستانیوںسے ۔اس لئے آج بھی ملک جل رہا ہے اور سیاستدان لسانیت وصوبائیت کا زہر قوم کی رگوں پھیلارہے ہیں ان سیاستدانوں نے آج تک کوئی ایسی پالیسی تشکیل نہیں دی جس سے ملک وقوم کو ذراسابھی فائدہ ہواہو ۔بجلی بندہے ‘صنعتیں بندہیں ‘مزدور بیروزگار ہے ‘اساتذہ اور سرکاری ملازمین رو رہے ہیں ۔لوگ اپنے بچے تک فروخت کر رہے ہیں اور پوری قوم کی توجہ دہشتگردی کی طرف کر کے اصل مسائل سے نظریں چرائی جا رہی ہیں ۔ دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر پوری دنیا سے بھیک مانگی جا رہی ہے آج اگر ملک سے روزگار ناپیدہے ۔ تعلیمی سہولیت عنقا ہیں ودیگر پہاڑجیسے مسائل کھڑے ہیں تو اس ساری صورتحال میں سیاستدانوں کے ساتھ عوام بھی برابر کے شریک ہیں۔سیاستدان تو مٹھی بھر ہی ہیں جو عوام کا استحصال کر رہے مگر عوام بھی تو خاموش ہے وہ نظام کو بدلنے کیلئے نکلنے کو تیار ہی نہیں بلکہ بدلنا تو دور کی بات ہے کوئی موجودہ سسٹم کو غلط کہنے تک پر تیار نہیں سیاستدانوں کی بے حسی اور عوام کی کاہلی نے پاکستان کے چہرے کو بری طرح مسخ کر دیاہے ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر آدمی از خود اپنے حصہ کا کم کرے بلکہ دوسروں کو بھی تخلیقی کام کی طرف راغب کرے پاکستان میں اس وقت ایک عوامی انقلاب کی اشد ضرورت ہے لیکن انقلاب صرف بندوق کی نالیوں سے ہی نہیں نکلتا بلکہ انقلاب اتحاد یکجہتی اور کچھ کر گزرنے کا جزبہ ہوا کرتا ہے اگر پاکستان میں انقلاب لانا ہے تو ہمیں ازخود اپنی تمام ذمہ داریاںایمانداری سے پوری کرنی ہونگی ہمیں سب سے پہلے اپنا احتساب کرنا ہو گا کہ کیا ہم اپنے آپ سے مخلص ہیں؟ہمیں لسانیت وصوبائیت کی منافرت سے نجات حاصل کرنی ہو گی ہمیں اپنی زندگی مقصد کے تحت گزارنی ہو گی ۔ یاد رکھئے جس کے پاس زندگی گزارنے کا کوئی مقصد نہیں ہوتا اسکی زندگی مردوں سے بد تر ہوتی ہے

No comments:

Post a Comment