Thursday, April 30, 2009

چانکیائی سیاست کا علمبردار امریکا

چانکیائی سیاست کا علمبردار امریکا
وہ بادشاہ کے دربار میں گیا اور اس نے حکومت کی خامیاں گنوانا شروع کر دیں اور اس کے بعد بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اگر اسے وزیر اعظم بنا دیا جائے تو وہ ریاست کی تمام خرابیاں دور کر سکتا ہے ،بادشاہ نے اس سے کہا کہ اس کا فیصلہ کل کریں گے لہذہ وہ آج آرام کرے ،بادشاہ نے خدمت گزاروں کو اسے مہمان خانے میں لے جانے کا کہا ،وہ بادشاہ اور درباریوں کی نگاہوں کامفہوم بھانپ چکا تھا کہ آج رات ہی اسے قتل کر دیا جائے گا لہذہ وہ فرار ہو گیا اور ایسی جگہ پہنچا جہاں زہریلی گھاس اگی ہوئی تھی اور وہ گھاس اتنی زہریلی تھی کہ انسان اسے چھوتے ہی مر جاتا اس نے اپنے سامان کے تھیلے سے گڑ نکالا اور اس کا شیرہ بنا کر گھاس کی جڑوں میں ڈال دیا ایک شخص یہ دیکھ رہا تھا اس نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں کیا؟َاس نے کہا کہ میں نے زہریلی گھاس کی جڑوں میں شیرہ ڈال دیا ہے ابھی چیونٹیاں آئیں گی اور جب وہ شیرہ نوچیں گی تو اس کے ساتھ گھاس کی جڑیں بھی کھود دیں گی اور اس کے بعد اس گھاس کو دھوپ سکھا دے گی اور ہوا اڑا کر لے جائے گی اس کے بعد اس کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ملے گا ،وہ شخص جس نے سوال کیا تھا وہ اسی سلطنت کا ولی عہد تھا اور گھاس کی جڑوں میں شیرہ ڈالنے والے کو تاریخ چانکیہ کے نام سے جانتی ہے،چانکیہ کا دور حضرت عیسی سے ایک سو پچاس برس پہلے کا تھا مگر اس کے باوجود اس کی کتاب ''ارتھ شاستر''آج بھی اصل حالت میں موجود ہے ،چانکیہ کے مطابق اگر کسی قوم کو تباہ کرنا ہے تو اس کے طبقہ اشرافیہ کے افراد کو خرید لو اور انہیں ڈراؤ کہ اگر انہوں نے تمہارا ساتھ نہ دیا تو وہ برباد ہو جائیں گے انہوں باور کراؤ کہ تم ان کیلئے ناگزیر ہو ان کی ثقافت تہذیب و تمدن کو اپنے رنگ میں رنگ دو کہ وہ نا چاہتے ہوئے بھی وہی سوچنے پر مجبور ہو جائیں جو تم چاہتے ہو۔یہ دنیا پر حکمرانی کیلئے ضروری ہے کہ دوسری اقوام کو لالچ و جبر سے دباؤ اور ان کے وسائل پر قبضہ کر لو۔
آج اگر ہم عالمی سیاست کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا چانکیائی سیاست پر عمل پیرا ہے ،نیو ورلڈ آرڈر اور دہشتگردی کیخلاف جنگ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں کہ امریکا مسلمان ممالک کو کمزور کر کے ان کے وسائل پر قبضہ جمانا چاہتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا مسلمانوں کا ہی دشمن کیوں ہے ؟ تو اس کا آسان جواب ہے کہ لارنس آف عربیہ کے کارنامے سے قبل سلطنت عثمانیہ کا دنیا بھر کے تمام مسلمانوں پر اثر و وثوق تھا( لارنس آف عربیہ نے سلطنت عثمانیہ کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا تھا ) خلیفہ المسلمین اگر کسی ملک کیخلاف طبل جنگ بجاتا تھا تو دنیا کے تمام مسلمان ملک اس میں شامل ہو جاتے تھے سلطنت عثمانیہ مسلمانوں کا عالمی مرکز تھا جو کہ انہیں یکجا رکھتی تھی۔ اب وقتا فوقتا ایسی تحریکیں چلتی رہتی ہیں جو کہ خلافت قائم کرنا چاہتی ہیں تو امریکا کو خوف ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو مسلمان دوبارہ یکجا ہو سکتے ہیں اس لئے وہ مسلمانوں کے غیرت ملی سے عاری، ضمیر فروش حکمرانوں اور سیاستدانوں کولالچ دیکر یا ڈرا دھمکا کر اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا میں 57مسلم ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اس لئے امریکا دنیا پرحکمرانی کیلئے قدرتی وسائل پر قبضہ کرناچاہتا ہے امریکا کے سامنے اب تک صرف ایک رکاوٹ روس کی شکل میں آئی تھی جو کہ حقیقتا اس کا حریف تھا اسے امریکا نے بڑی ہوشیاری سے مسلمانوں کو استعمال کر کے ختم کر دیا اورجس منصوبے کے تحت اس نے روس کو ختم کیا اب اسی منصوبے پر عمل کرتے ہوئے وہ مسلمانوں کیخلاف برسر پیکار ہے ۔1979ء میں افغانستان پر روسی افواج قبضہ کر چکی تھیں انہی دنوں جرمنی کے سائنسدان ڈاکٹر آئزن بائنرے نے افیم سے ہیروئن بنانے کا آسان نسخہ ایجاد کیا تھا ڈاکٹر بائنرے کے فارمولے کے مطابق 4کلو افیون سے ایک کلو ہیروئن بنتی تھی جبکہ اس سے پہلے ایک کلو ہیروئن بنانے کیلئے 12 سے 15 کلو ہیروئن درکار ہوتی تھی ،امریکی سی آئی اے ڈاکٹر آئزن بائنرے کو ایک کروڑ امریکی ڈالردے کر پاکستان لائی اس نے یہاں چرس کے اسمگلروں کو ہیروئن بنانا سکھائی اور اس کے بعد امریکی سی آئی اے نے دنیا بھر میں چرس کا بحران پیدا کر کے ہیروئن کی کھپت بڑھا دی اور اس سے حاصل ہونیوالی آمدنی کو روس کیخلاف جنگ کیلئے وقف کر دیا اس کے بعد امریکی پالیسی سازوں کے منصوبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کی سرپرستی میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاد کا نعرہ لگایا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان کی ہر گلی میں جہادی تنظیموں کے دفاتر کھلے ہوئے تھے ،جہاد کیلئے پاکستان سے تیس(30) لاکھ اور دنیا بھر سے پانچ(5)لاکھ جہادی بھرتی کئے گئے اور انہیں پاکستان میں موجود بیس کیمپوں میں گوریلا جنگ کی ٹریننگ دی گئی امریکا نے ہیروئن کی کمائی امداد اور ہتھیاروں کی شکل میں حکومت پاکستان اور جہادیوں پر نچھاور کرنا شروع کر دی ،افغان جہاد ختم ہوا اب مسئلہ ان 35لاکھ لوگوں کا تھا جنہیں جنگ کے سوا کچھ نہ آتا تھا اور وہ امریکی و پاکستانی سرپرستی نہ ہونے کے سبب بکھر گئے تھے وہ آخر کار کوئی چارہ نہ پا کر مقامی سطح پر ہونیوالی ہیروئن کی کمائی حاصل کرنے کیلئے لڑنے لگے ،بالآخر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ایک مخصوص گروہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور دوسرے گروپ بھی اسی گروپ میں ضم ہو گئے اور یوں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی، جب شروع میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو امریکا نے کچھ خیال نہیں کیا کہ تباہ حال ملک کو چلانا مشکل ہی نہیں نا ممکن کام ہے لیکن جوں جوں طالبان حکومت مستحکم ہوتی گئی تو امریکا کو تشویش لاحق ہوئی کیونکہ طالبان پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھتے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ امریکا نے پاکستان کی مدد سے ہی انہیں بنایا تھا ،35لاکھ گوریلا جنگ کی ماہر فوج(طالبان) اور 12لاکھ جدید ترین ہتھیاروں اور اعلی عسکری تربیت سے لیس پاک فوج کی تعداد کل ملا کر 47 لاکھ ہو رہی تھی جو کہ امریکی بالا دستی کیلئے کھلا خطرہ تھا ،امریکا نے اس خطرے کو ختم کرنے کیلئے پہلے پاکستان کی حکومت کو پر مشرف کو نازل کیا اور اس کے بعد نائن الیون کا ڈرامہ کھیلا اوردہشتگردی کیخلاف جنگ کے نام پر افغانستان پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ،جب افغانستان میں طالبان کا مقابلہ امریکی فوج سے ہوا تو انہوں نے پلٹ کر پاکستان کی طرف دیکھا لیکن پاکستان نے یو ٹرن لیا اور جو طالبان پاکستان کی جانب آئے انہیں مارنا شروع کیا تو طالبان ادھر ادھر ہو گئے ،یہ امریکی جنگ کا ہی ثمر ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی شہر اب خود کش حملہ آوروں سے محفوظ نہیں کیونکہ ایک چیونٹی کو بھی مسلنے کی کوشش کی جائے تو وہ کاٹتی ہے۔دہشتگردی کیخلاف جنگ شروع کر سے قبل امریکی دانشوروں نے تصور کیا تھا کہ وہ مسلم دینا کو کمزور کر کے ان کے وسائل پر قبضہ کر لیں گے لیکن خلاف توقع انہیں اس جنگ میں کوئی خاص کامیابی نصیب نہیں ہوئی اور نہ ہی مسلمانوں کو کسی خاص بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس ساری صورتحال سے امریکا کو ایک نقصان ہوا ہے کہ دہشتگردی کے نام جنگ سے امریکا مخالف قوتیں یکجا ہو گئی ہیں اب امریکا کو جو سب سے بڑا خطرہ ہے وہ یہ کہ کسی بھی مسلمان ملک سے ایٹمی ہتھیار انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں اس لئے اب مستقبل قریب میں امریکی حکومت دہشتگردی کیخلاف جنگ ختم کر کے DE-NUCLEARISE MUSLIM WORLDکے عنوان سے نیا محاذ کھولے گی اور دنیا بھر میں پاکستان ہی ایسا ملک ہے جو ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے جوہری ہتھیار دہشگردوں کے ہاتھوں لگ سکتے ہیں حالانکہ ایران بھی ایٹمی میدان میں خود کفیل ہو گیا ہے لیکن امریکا کیلئے پہلا اور آسان ہدف پاکستان ہے کیونکہ ایران میں کوئی ایسا سیاستدان نہیں جو امریکا کو یقین دلائے کہ ایرانی فوج میں انتہا پسند عناصر ہیں یا طالبان ایران پر قبضہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کبھی کسی ایرانی سیاستدان نے یہ بیان دیا ہے کہ ایران کے کسی علاقے یا امام بارگاہوں میں دہشتگردوں کو ٹریننگ دی جارہی ہے پاکستان کے ضمیر فروش حکمران امریکا کی کاسہ لیسی میں اتنے آگے جا چکے ہیں کہ شاید ہی کوئی امریکی بھی امریکا سے زیادہ ان کا وفادار ہو ملک میں کسی بھی قسم کا کوئی بحران ہو یہ سیاستدان ملک کر امریکا کے آگے سر بسجود ہوتے ہیں ۔اس تمام صورتحال میں دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ مسلم امہ کی حفاظت کرے(آمین)۔